جمہوری انقلاب
راتوں رات نہیں آجاتے ، وقت درکار ہوتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ اس کی سمت درست ہو ۔
رکاوٹیں آتی ہیں اور اپنے آپ کو بے نقاب کرکے اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتی ہیں ۔
اگر پاکستان کی
تاریخ کا جائزہ لیں تو کئی ، آمرانہ ، نیم آمرانہ اقتدار جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر
اپنی قسمت کو آزماتے رہے ۔ جو دراصل صاحب اختیار لوگوں کی ذاتی مفادات کے گرد
گھومتی سوچ کا عمل تھا جس کو کبھی کوئی تو کبھی کوئی رنگ دیا جاتا رہا جس میں
نظریہ ضرورت بہت مشہور ہوا۔ اس میں سیاستدان اورعوام بھی اپنی اپنی سوچ کے مطابق کردار ادا کرتے رہے ۔
اس سارے عمل میں نظریہ جمہوریت اور نظریہ
مفادات کے درمیاں زور آزمائی ہوتی رہی ۔
کبھی نظریہ جمہور حاوی رہا تو کبھی نظریہ مفاد ۔ وقفوں میں جمہوریت کو بھی اپنا
زور بازو آزمانے کا موقع ملتا رہا ۔
عوام اور سیاستدانوں
کی تربیت ہوتی رہی ، شعور اجاگر ہوتا رہا ، لوگوں نے قربانیاں بھی دیں اور یہ
سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔
لوگ اس میں
اداروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں مگر میں اس کا حامی نہیں ۔ میرے نزدیک یہ سوچوں
کا شاخسانہ تھا اور جس سوچ نے ہمیں نقصان پہنچایا وہ ذاتی مفادات کو قومی مفادات
پر ترجیح دینے والی سوچ ہے جو ہماری قوم
میں اکثریت پر حاوی ہے ۔
ہم سب ایک قوم ، نظریہ اور ریاست میں رہنے والے ہیں مگر
سوچ کا زاویہ ہمیں تقسیم کئے ہوئے ہے ۔ سب اپنے اپنے اختیار کے مطابق اپنے اپنے
دائرے میں اپنے حصے کا کردار ادا کررہے ہیں ۔ جس کی سوچ اجتماعی مفادات کو ترجیح دینے کی ہے وہ اجتماعی فائدے کا کردار ادا کررہا ہے اور
جس کی ذاتی مفادات کو ترجیح دینے کی ہے وہ
اپنے ذاتی فائدے کا کردار ادا کررہا ہے ۔ اس کا جائزہ آپ ہر سطح پر لے سکتے ہیں ۔ اپنی نجی زندگی سے لے کر قومی
سطح تک نظر دوڑایں تو ہر دو طرح کے کردار
نظر آئیں گے ۔
اب اس سوچ کا
حامل فرد اگر گھر کا سربراہ بنا تو اس کے اثرات وہاں بھی پڑے اور اگر وہ کسی ادارے
کا سربراہ بنا تو وہاں بھی ابھرے اور قوم و ملک متاثر ہوئے ۔
جس کو بھی اختیار
ملا اس کی سوچ کے اثرات واضح ہوئے اور ان پر رد عمل بھی ہوا ۔ اب رد عمل کا بھی
اپنا اپنا نقطہ نظر ہوتا ہے جو دھیمے مزاج کے ہوتے ہیں ان کے نقطہ نظر کا انداز
بھی دھیما ہوتا ہے اور جو سخت مزاج کے ہوتے ہیں ان کا انداز بھی سخت ہوتا ہے ۔ ان
کے آپس میں ٹکراؤ سے کشمکش کی صوتحال پیدا ہونے کا خدشہ بھی اپنی جگہ پر فطری عمل
ہے ۔
یہ سوچ ملکی
سربراہ کے عہدے پر پہنچی تو وہاں بھی اس کا اجتماعی مفادات کے ساتھ ٹکراؤ پیدا ہوا
، وہ کسی ادارے کے سربراہی پر پہنچی تو وہاں بھی اس کے اثرات اور ٹکراؤ دیکھنے کو
ملتے ہیں ۔
ظاہر ہے جس طرف
سوچ کا رجحان ہوتا ہے اسی طرف مفادات کا بہاؤ ہوتا ہے ۔ تو کہیں فرد فائدے میں
رہتا ہے تو کہیں قوم (اجتماعیت) ۔
جمہوریت وہ نظام
ہے جس میں فیصلے کا اختیار اکثریت کو دیا گیا ہے جس میں اخلاقیات اور اچھی سوچ کا موجود ہونا
انتہائی ضروری ہے ۔ جتنے اچھے اخلاق ہونگے ، اجتماعی صلاحیتوں ، توانائیوں کا
استعمال اتنا ہی اچھا ہوگا اور اس سےنکلنے والے اعمال بھی ٹھیک ہونگے اور یوں اس
سے معاشرے کے معاملات ٹھیک ہوتے چلے جائیں گے ۔ جب سوچ اور معاملات ٹھیک ہوں گے تو
پھر اس سے حاصل ہونے والے جمہوری نظام کے ثمرات بھی ٹھیک ہونگے ۔
اگر ہم جائزہ لیں
تو ہمیں ہر دو سوچوں کی ہر سطح پر مثالیں ملتی ہیں اور پھر ان کے نتائج اور ان سے
حاصل اسباق بھی صاف عیاں ہیں ۔
مثلاً اگر اداروں
کی سربراہان کی سطح پر سوچ کا جائزہ لیں تو جن جن شخصیات نے اس ذاتی مفادات والی
سوچ کے تحت کردار ادا کیا ان کے حال ہمارے سامنے ہے کہ ان کو کتنا فائدہ ہوا اور
کتنا نقصان اور پھر یہ فائدے کتنے چھوٹے بڑے یا ان سے حاصل ہونے والے فوائد اور
نقصانات کا دورانیہ کیا رہا ۔ تو جن جن شخصات نے بھی اپنی اس سوچ کے تحت جمہوری
نظام کو سبوتاژ کیا جس میں انکے مختلف کردار ہوسکتے ہیں ان سب کو وقتی مفادات تو
ملے مگر بعد میں دیرینہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑا جس میں ذاتی ، جانی ، مالی
نقصانات سے لے کر نسلوں تک اس کے اثرات رہے اور نتائج بھگتے ۔ جس سے نہ صرف ان کی
زات اور خاندان کو بلکہ اداروں کو بھی نقصان پہنچا اور عوام کے اندر اداروں کا
تشخص تباہ ہوگیا ۔ پوری قوم انہیں سوچوں کی وجہ سے اختلافات ، انتشار اور بدامنی
کا شکار ہوتی چلی گئی اور آج ہماری تمام تر صلاحیتیں اور توانائیاں غلط جگہ پر
استعمال ہورہی ہیں ۔ ہم معاشی طور پر غلام قوم کے طور پر دیکھے جاتے ہیں ۔
جمہوریت کس طرح
اپنے حقیقی انقلاب کی طرف رواں دواں ہے اس کی مثال میں چند نقاط آپ کے سامنے رکھنا
چاہوں گا ۔
جنہوں نے بھی اس
سوچ کا مظاہرہ کیا یا ساتھ دیا آج وہ بری طرح پریشان ہیں اور اس ملک میں ان کی
نسلوں میں بھی کسی کو ملک و قوم اور جمہوریت میں مقام نہیں مل سکا ۔
کسی بھی ایسے
سیاستدان ، جرنیل ، صحافی یا جج کی اولاد میں سے بھی کسی کو آپ سیاست میں اہم مقام
پر نہیں دیکھتے ۔ جو اس دنیا میں ہیں وہ ایک عبرت بنے ہوئے ہیں ۔ تو یہ سبق ہے ان
سوچوں کے لئے جو اب بھی ذاتی مفادات کو ترجیح دیتی ہیں ۔
ایک اور بڑی وجہ
میرٹ سے ہٹ کر اہم عہدوں پر بھرتیا ں ہیں جو اس سوچ کا شاخسانہ ہے جو اپنے مفادات
کو ترجیح دیتے رہے اور اس طرح کے لوگوں کو ان کی مجبوریاں آڑے آتی رہیں ۔ ان میں
وہ اہلیت اور قابلیت نہیں تھی جو کسی دباؤ کا مقابلہ کر سکتے ۔ لہذا وہ اپنے آقاؤں
کی سوچ کو تحفظ پہنچاتے رہے اور اس کے عوض مفادات حاصل کرتے رہے ۔
مگر آپ اس بات کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کو تاریخ نے بے نقاب نہ کیا ہو اور وہ قومی غضب کا شکار نہ ہوئے ہوں ۔ یہ فطرت کا اصول ہے کہ ناانصافی کبھی بھی قبولیت نہیں پاسکتی خواہ وہ اس سے فائدہ اٹھانے والوں کی ذات ہی کیوں نہ ہوں ۔
احتجاج ، آزادی ااااظہار رائے ہر
شہری کا بنیادی حق ہے ، عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکایا گیا ، پرامن احتجاج کی
ضمانت دی گئی ، انصاف سر چڑھ کر بولا ، راستے کھل گئے ، پھر عدالتی احکامات کے
ساتھ کیا سلوک ہوا زمانے کی آنکھ نے دیکھا ۔
عادل کو حقائق سے
آگاہ کر کے توہین عدالت پر کاروائی کی گزارش کی گئی ۔ عدل کا اپنے احکامات کے تحفظ
کا انداز ، صورتحال پر تبصرہ اور عدل کا
حسین فلیورہر ذی شعور نے دیکھا ۔ ایک دفعہ امن ہوگیا یہی ملک و قوم کو مقصود تھا ۔
حالیہ ڈپٹی سپیکر
پنجاب کی رولنگ کا معاملہ اور انصاف کی صورتحال اور سیاسی جماعتوں کا کردار سب آپ
کے سامنے ہے اور تاریخ ماضی کی طرح اس کا بھی فیصلہ کرے گی مگر موجودہ وقت میں اس
کے نتائج بھی آپ کے سامنے ہیں کہ چیف جسٹس اور ان کے رفقاء چند دن ہی میں دفاعی
صورت حال سے دوچار نظر آرہے ہیں ۔
سیاستدانوں میں
بھی جو جو جموریت کے ساتھ کھلواڑ کرتا رہا ہے یا جو اس میں شریک جرم تھے سب بے
نقاب ہوچکے ہیں اور تمام تر سہولتوں اور حمائتوں کے باوجود آنے والے دنوں میں اپنے
منطقی انجام کو پہنچیں گے ۔
جو ہوا ٹھیک ہوا
۔ سب نے اپنی اپنی سوچ اور بساکھ کے مطابق اس میں حصہ ڈالا ۔ ہر کوئی اپنے فیصلوں
میں آزاد ہے ۔ کس نے کیا کیا ، کون ٹھیک ہے ، کون غلط ، ہم اس بحث میں نہیں پڑتے ۔
میں کہتا ہوں سب ٹھیک ہیں ۔ اس پر کوئی جو بھی تبصرہ کررہا ہے ، ہر کوئی درست ہے ۔
اس کا یہ حق ہے ۔ اسی طرح ہوتا ہے اور اس سے سوچیں پروان چڑھتی ہیں اور اجتماعی
سوچیں ترتیب پاتی ہیں اور ایسے نتائج نکلتے ہیں جن کے مظاہرے آجکل سڑکوں ، عدالتوں
اور پارلیمان میں ہورہے ہیں ۔
بیانیے بنتے اور
بے نقاب ہوتے چلے جاتے ہیں اور جو حق پر ہوتے ہیں ان کے لئے راہیں خود بخود کھلتی
چلی جاتی ہیں ۔
سیاستدانوں کے
اپنے پلان ہوتے ہیں جو اے ، بی بناتے اور اپلائی کرتے رہتے ہیں مگر ایک جی پلان
بھی ہوتا ہے جو گاڈ (اللہ) کی طرف سے ہوتا ہے جس کی بنیاد انصاف پر ہوتی ہے اور
اللہ تعالیٰ کا نظام ایک وزن پر قائم ہے جس میں چہرے نہیں بلکہ کردار دیکھے جاتے
ہیں اور اس میں دیر ہوسکتی ہے مگر اندھیر نہیں ۔
میں اس کو حقیقی
جمہوری انقلاب کا سفر سمجھتا ہوں جو اپنی منزل کی طرف گامزن ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں